فضا بے رنگ اتنی ہو رہی ہے
قیامت سر پکڑ کر رو رہی ہے
ذرا انسانیت کو دو صدائیں
کہاں پہ منہ چھپائے سو رہی ہے
یہ کس نے مَل دی بیدردی سے کالک
زمیں چہرہ لہو سے دھو رہی ہے
لُٹے شہروں کے خونیں آنگنوں میں
”اداسی بال کھولے سو رہی ہے“
قحط، سیلاب، فتنے، زلزلے، جنگ
تباہی سی تباہی ہو رہی ہے
بتائیں کیا؟ زمانہ جانتا ہے
جو سازش اور بغاوت ہو رہی ہے
محبت ہو گئی کمیاب سیما
یہ دنیا اپنی وُقعت کھو رہی ہے
سیما عابدی
No comments:
Post a Comment