Sunday, 28 February 2021

فضا بے رنگ اتنی ہو رہی ہے

 فضا بے رنگ اتنی ہو رہی ہے

قیامت سر پکڑ کر رو رہی ہے

ذرا انسانیت کو دو صدائیں

کہاں پہ منہ چھپائے سو رہی ہے

یہ کس نے مَل دی بیدردی سے کالک

زمیں چہرہ لہو سے دھو رہی ہے

لُٹے شہروں کے خونیں آنگنوں میں

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

قحط، سیلاب، فتنے، زلزلے، جنگ

تباہی سی تباہی ہو رہی ہے

بتائیں کیا؟ زمانہ جانتا ہے

جو سازش اور بغاوت ہو رہی ہے

محبت ہو گئی کمیاب سیما

یہ دنیا اپنی وُقعت کھو رہی ہے


سیما عابدی

No comments:

Post a Comment