کبھی جو اس کی تمنا ذرا بپھر جائے
نشہ پھر اس کی انا کا اتر اتر جائے
چراغِ شب میں تو جلنے کا حوصلہ ہی نہیں
وہ چاہتا ہے کہ تہمت ہوا کے سر جائے
زمیں پہ غلبۂ شیطاں، فلک برائے ملَک
بشر غریب پریشاں کہ وہ کدھر جائے
مِری حیات کا سورج ہے سُوئے غرب مگر
محال ہے کہ مِرا ذوق و شوق مر جائے
جسے نہ آئے جلانا ہوا کے رخ پہ چراغ
وہ اپنا کام ہمارے سپرد کر جائے
چراغِ ذہن جو روشن نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ تارے توڑ کے لائے کہ چاند پر جائے
ارشد کمال
No comments:
Post a Comment