کسی کے ساتھ سفر اختیار کرتے ہوئے
میں سوچتا ہی نہیں اعتبار کرتے ہوئے
مِرے خدا کہیں کوئی جزیرہ میرے لئے
میں تھک گیا ہوں سمندر کو پار کرتے ہوئے
انہیں بتاؤ کہ لہریں جُدا نہیں ہوتیں
یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے
مِری بُنت میں کئی اُلجھنیں کئی بَل ہیں
بکھر نہ جانا مجھے تار تار کرتے ہوئے
تمام حبس مِرے نام کر گیا کوئی
رُتوں کو اپنے لیے سازگار کرتے ہوئے
دِیا جلاتے ہوئے ہاتھ جل گئے میرے
میں خواب میں تھا تِرا انتظار کرتے ہوئے
تمیزِ صوت و سماعت نہیں رہی شاہد
اکیلے پن میں مسلسل پُکار کرتے ہوئے
شاہد ذکی
No comments:
Post a Comment