پہلے سے بار بار کی دیکھی ہوئی زمین
تم آئے، اور لگنے لگی یہ نئی زمین
تم چھوڑ دو تو میں بھی چلا جاؤں گا کہیں
پھیلی ہے میرے سامنے اتنی بڑی زمین
حیران ہوں کہ اتنی بڑی کائنات میں
ہے صرف ایک وہ بھی یہی تنگ سی زمین
پہلے سے بہتر اور نئی چیزیں ہوں گی اب
تشکیل دے رہا ہوں الگ طرح کی زمین
ممکن ہے اور بھی کوئی موجود ہو کہیں
ممکن تو یہ بھی ہے کہ یہ ہو آخری زمین
میں چھان ماروں گا کرۂ ارض سارا ہی
مل جائے گی کہیں نہ کہیں تو کوئی زمین
ہم جیسوں کے لیے کوئی سیارہ ہو الگ
ہم جیسوں کے لیے تھی، نہ ہو گی کبھی زمین
تم جانیاں تو دیکھنا مِری یہاں سے پھر
جس روز مل گئی کہیں پر دوسری زمین
ہونی تو چاہیے تھیں زیادہ زمینیں، گل
کب تک اٹھائے بوجھ مِرا ایک ہی زمین
گل فراز
No comments:
Post a Comment