جس دم خیالِ یار کی بے چہرگی گئی
آئینۂ فراق سے بے رونقی گئی
بیٹھا غبارِ حسرتِ تعمیر اب کی بار
شوقِ سفر کی راہ میں آوارگی گئی
وحشت ہمارے ضبط کا اجڑا مزار ہے
لاکھوں جتن کیے نہ سراسیمگی گئی
ہم سے قبائے درد پہ تارے نہ ٹنک سکے
کسبِ ہنر کی تاک میں واماندگی گئی
ہونے کا اعتبار بناتی سحر کے ساتھ
کرنوں کی بے نیاز تر و تازگی گئی
فرح رضوی
No comments:
Post a Comment