Friday, 26 February 2021

خوش بچھڑ کر رہ سکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

 خوش بچھڑ کر رہ سکا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

ہاں مگر یہ مانتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

عمر اک دوجے کے پاؤں کاٹنے میں کاٹ کر

آج پیروں پر کھڑا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

ایک دُوجے کو رُلانے کا یہی انجام تھا

عمر ساری پھر ہنسا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

دوسروں سے مانگنے کیا پارسائی کے ثبوت

سچ تو یہ ہے پارسا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

اب تو میں جس اِبتلا میں مُبتلا ہوں اس کا حل

اے مِرے مُشکل کشا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

ایک چُپ ہے جو نِگلتی جا رہی ہے شہر کو

اور اس پر بولتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں


احمد فرہاد

No comments:

Post a Comment