وقت کو خاص گزر گاہ سمجھنے والے
آج موجود نہیں آہ، سمجھنے والے
دل میں تعبیر کی خواہش ہی نہیں رکھتے ہیں
ہم تِرے خواب کو درگاہ سمجھنے والے
ان زمینوں کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں
آسمانوں کو گزر گاہ سمجھنے والے
زندگی تیرے بھٹکنے کو سمجھ لیتے ہیں
موت کی سمت گئی راہ سمجھنے والے
آج معزول ہوں تو پاس نہیں آتے ہیں
اک زمانے میں مجھے شاہ سمجھنے والے
مذہبِ عشق میں زندیق بنیں گے آخر
جسم کو صرف پنہ گاہ سمجھنے والے
وہ پرندے ہوں کہ تارے کہ سمندرسائیں
ہم تو فطرت کو ہیں درگاہ سمجھنے والے
دکھ کے موسم میں سمجھ جائیں گے ان چہروں کو
شہر میں سب کو بہی خواہ سمجھنے والے
جھوٹ کو سچ کی جگہ آگے بڑھا دیتے ہیں
سچ کے ہر روپ کو افواہ سمجھنے والے
ہو گیا خاص مجھے خاص سمجھنے والا
ہو گئے گم مجھے گمراہ سمجھنے والے
اب اندھیروں میں بھٹکتے ہیں سرِ شام کہیں
روشنی کو کبھی ہمراہ سمجھنے والے
ہجر کے راز سمجھنے سے کہاں واقف ہیں
وصل کو عشق کی تنخواہ سمجھنے والے
اسحاق وردگ
No comments:
Post a Comment