Saturday, 27 February 2021

نہ سر پر آسماں کوئی

 نہ سر پر آسماں کوئی


کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

اندھیرے شام سے پہلے نگاہوں میں اترتے ہیں

چمکتی دھوپ کا منظر بہت تاریک لگتا ہے

گھنے پیڑوں کے سائے بھی

زمیں سے روٹھ جاتے ہیں

کہ صبحِ نو بہاراں بھی خزاں معلوم ہوتی ہے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

کہ حرف و صوت کے رشتے

زباں ‌سے ٹوٹ جاتے ہیں

نہ سوچیں ساتھ دیتی ہیں

نہ بازو کام کرتے ہیں

رگ و پے میں لہو بھی منجمد محسوس ہوتا ہے

چراغِ جسم و جاں کی لَو دھواں معلوم ہوتی ہے

مگر جب ایسا ہوتا ہے

تو آنکھوں کے جزیرے سیلِ غم میں ڈوب جاتے ہیں

شجر ہوتا ہے رستے میں نہ سائے کا نشاں کوئی

زمیں رہتی ہے قدموں میں نہ سر پر آسماں ‌کوئی

شکستہ دل کے خانوں میں

بس اک احساس ہوتا ہے

یہ رشتے کیوں بکھرتے ہیں

جو اپنے لوگ ہوتے ہیں

وہ ہم سے کیوں بچھڑتے ہیں​؟


معظم سعید

No comments:

Post a Comment