نہ سر پر آسماں کوئی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
اندھیرے شام سے پہلے نگاہوں میں اترتے ہیں
چمکتی دھوپ کا منظر بہت تاریک لگتا ہے
گھنے پیڑوں کے سائے بھی
زمیں سے روٹھ جاتے ہیں
کہ صبحِ نو بہاراں بھی خزاں معلوم ہوتی ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ حرف و صوت کے رشتے
زباں سے ٹوٹ جاتے ہیں
نہ سوچیں ساتھ دیتی ہیں
نہ بازو کام کرتے ہیں
رگ و پے میں لہو بھی منجمد محسوس ہوتا ہے
چراغِ جسم و جاں کی لَو دھواں معلوم ہوتی ہے
مگر جب ایسا ہوتا ہے
تو آنکھوں کے جزیرے سیلِ غم میں ڈوب جاتے ہیں
شجر ہوتا ہے رستے میں نہ سائے کا نشاں کوئی
زمیں رہتی ہے قدموں میں نہ سر پر آسماں کوئی
شکستہ دل کے خانوں میں
بس اک احساس ہوتا ہے
یہ رشتے کیوں بکھرتے ہیں
جو اپنے لوگ ہوتے ہیں
وہ ہم سے کیوں بچھڑتے ہیں؟
معظم سعید
No comments:
Post a Comment