ایسا نہیں کہ بزم میں اچھا کوئی نہ تھا
لیکن مجھے یقین ہے تم سا کوئی نہ تھا
کل شام کیوں اداس تھے دل کی گلی میں لوگ
میرے سوا تو شہر میں تنہا کوئی نہ تھا
اک شوق تھا کہ خود سے ملاقات ہو کبھی
لیکن مِرے مکان میں مجھ سا کوئی نہ تھا
کس نے خریدنا تھا وہاں آئینہ جناب
بے چہرگی کی بھیڑ تھی چہرہ کوئی نہ تھا
برپا تھا شور ایک مسیحا کا شہر میں
گلیوں میں ہم نے گھوم کے دیکھا ،کوئی نہ تھا
فرہاد سا جنوں ہی مِرے کام آ گیا
ورنہ سُلگتے دشت میں دریا کوئی نہ تھا
معظم سعید
No comments:
Post a Comment