Sunday, 28 February 2021

ایسا نہیں کہ بزم میں اچھا کوئی نہ تھا

 ایسا نہیں کہ بزم میں اچھا کوئی نہ تھا

لیکن مجھے یقین ہے تم سا کوئی نہ تھا

کل شام کیوں اداس تھے دل کی گلی میں لوگ

میرے سوا تو شہر میں تنہا کوئی نہ تھا

اک شوق تھا کہ خود سے ملاقات ہو کبھی

لیکن مِرے مکان میں مجھ سا کوئی نہ تھا

کس نے خریدنا تھا وہاں آئینہ جناب

بے چہرگی کی بھیڑ تھی چہرہ کوئی نہ تھا

برپا تھا شور ایک مسیحا کا شہر میں

گلیوں میں ہم نے گھوم کے دیکھا ،کوئی نہ تھا

فرہاد سا جنوں ہی مِرے کام آ گیا

ورنہ سُلگتے دشت میں دریا کوئی نہ تھا


معظم سعید

No comments:

Post a Comment