اب کہاں جاؤں گا اٹھ کر میں یہیں رہنے دے
وحشت خانہ بدوشی تو کہیں رہنے دے
ہو گئی شاہ کو اب مات کہ میں کہتا رہا
ارے رہنے دے پیادے کو وہیں رہنے دے
لے کے جا سکتا ہے تو سر سے مِرا چرخ کہن
پر مِرے پیروں تلے میری زمیں رہنے دے
ترکِ ہجرت کا ارادہ بھی تو کر سکتا ہے
کون ٹھہرے گا یہاں دل کے مکیں رہنے دے
کج کلاہی نہ مجھے تخت نشینی سے غرض
سربسر خاک ہوں اور خاک نشیں رہنے دے
ہم کہ درویش ہیں اور عشق سے مطلب ہے ہمیں
حسن کو اپنی جگہ چیں بہ جبیں رہنے دے
عشق پھر اور پری زاد سے احمد عرفان
دیو پتھر کا بنا دے نہ کہیں رہنے دے
احمد عرفان
No comments:
Post a Comment