Saturday 27 February 2021

نشاط حسرت بے مول کیوں اٹھائے پھروں

 نشاطِ حسرت بے مول کیوں اُٹھائے پِھروں

کسی کے بولے ہوئے بول کیوں اٹھائے پھروں

بلا سے چشم تہی خواب کہہ دے یہ دنیا

میں اپنی آنکھوں میں کشکول کیوں اٹھائے پھروں

مکانِ دل پہ سنوں دستکیں نئے دن کی

بجھے ستاروں کے یہ جھول کیوں اٹھائے پھروں

کہاں میں اور کہاں آزمائشِ سرو قد

کشادگی سے چلوں سول کیوں اٹھائے پھروں

گریز میرے تکلم سے گر اسے ہے کلیم

تو اس کے کلمۂ انمول کیوں اٹھائے پھروں


کلیم حاذق

No comments:

Post a Comment