دوست اپنا جنہیں بناتا ہوں
میں انہیں سے فریب کھاتا ہوں
چھاؤں کے پیڑ میں لگاتا ہوں
دھوپ کے سائباں بناتا ہوں
کھینچ لیتے ہیں لوگ پیچھے سے
میں جو آگے قدم بڑھاتا ہوں
دشمنی کی مہیب خندق پر
میں محبت کے پُل بناتا ہوں
پھینکتا ہے وہ صحن میں اینٹیں
ان کو میں چُن کے گھر بناتا ہوں
اب اندھیروں سے ڈر نہیں لگتا
میں اجالوں سے خوف کھاتا ہوں
لوگ ناراض ہونگے پھر بھی سعید
وقت کو آئینہ⌗ دکھاتا ہوں
سعید رحمانی
No comments:
Post a Comment