لمحہ لمحہ ماتمی ہے آج کل
زندگی کیا زندگی ہے آج کل
خواب کی تعبیر کوئی کیا لکھے
دھول کاغذ پر جمی ہے آج کل
شورِ دل ہے نہ صدائے برگ و بار
پھر یہ کیسی بے کلی ہے آج کل
عالمِ سر گشتگی میں اب ہوا
جانے کس کو ڈھونڈتی ہے آج کل
پربتوں کے درمیاں اک جھیل پر
کتنی تنہا چاندنی ہے آج کل
دل میں آئے، دل جلایا، چل دئیے
یہ کہاں کی عاشقی ہے آج کل
دیکھنا ہم جیتے جی مر جائیں گے
حد سے بڑھ کر بے رخی ہے آج کل
معظم سعید
No comments:
Post a Comment