ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب کچھ نہیں
حرف و صدا فضول سب لوح و کتاب کچھ نہیں
ان سے کہو کہ اس طرح آنکھوں سے بدگماں نہ ہوں
کیسے عجیب لوگ ہیں کہتے ہیں خواب کچھ نہیں
بیٹھے بٹھائے دل یونہی خود سے اچاٹ ہو گیا
انجمن حواس میں ویسے خراب کچھ نہیں
فرق بہت نہیں یہاں شام و سحر کے درمیاں
پیاس اگر دبی رہے، آب و سراب کچھ نہیں
جاں کا بس ایک قرض ہے وہ بھی اتر ہی جائے گا
اور کئی عزیز کا ہم پہ حساب کچھ نہیں
شمیم فتحپوری
No comments:
Post a Comment