Friday, 26 February 2021

مرے دل سے ترا ارمان رخصت ہو چکا ہے

 مِرے دل سے تِرا ارمان رخصت ہو چکا ہے

مسافر رہ گیا، سامان رخصت ہو چکا ہے

میں پتھر کی طرح خود پر قناعت کر چکا ہوں

نمودِ جان کا امکان رخصت ہو چکا ہے

میں جب دفتر سے چھٹی کر کے آیا خود سے ملنے

اداسی نے کہا مہمان رخصت ہو چکا ہے

بہت ہی دیر سے پہنچی ہے آنکھوں کو تسلی

مسافر چھوڑ کر مژگان رخصت ہو چکا ہے

اب آئے ہو امیدوں کے مکانوں کو بچانے

تباہی کر کے جب طوفان رخصت ہو چکا ہے

وہ اب کانٹے بچھانا چھوڑ دے اپنی گلی میں

اسے کہنا علی ارمان رخصت ہو چکا ہے


علی ارمان

No comments:

Post a Comment