Saturday 27 February 2021

پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں

 پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں

پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں

میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے

میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں

جسے بھی جانا ہو، جائے چراغ جلتا ہوا

بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں

پلٹ تو آئی ہوں لیکن خموش دریا کو

سلگتی پیاس کا قصہ سنا کے آئی ہوں

وہ انتظار کرے گا مجھے یقیں ہے مگر

میں اب کبھی نہ ملوں گی بتا کے آئی ہوں

حضور عشق بتاؤ مجھے کہاں جاؤں

تمہیں خبر ہے میں ناؤ جلا کے آئی ہوں

وہ تیرے وعدے وہ باتیں وفا خلوص فرح

میں کھارے پانی میں سب کچھ بہا کے آئی ہوں


فرح خان

No comments:

Post a Comment