پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں
پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں
میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے
میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں
جسے بھی جانا ہو، جائے چراغ جلتا ہوا
بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں
پلٹ تو آئی ہوں لیکن خموش دریا کو
سلگتی پیاس کا قصہ سنا کے آئی ہوں
وہ انتظار کرے گا مجھے یقیں ہے مگر
میں اب کبھی نہ ملوں گی بتا کے آئی ہوں
حضور عشق بتاؤ مجھے کہاں جاؤں
تمہیں خبر ہے میں ناؤ جلا کے آئی ہوں
وہ تیرے وعدے وہ باتیں وفا خلوص فرح
میں کھارے پانی میں سب کچھ بہا کے آئی ہوں
فرح خان
No comments:
Post a Comment