Sunday 28 February 2021

خود کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا

خود کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا

ہم نے دریا سے عجب جبر کا رشتہ رکھا

دل کو رکھا تیری یادوں کی نگہبانی میں 

اور آنکھوں میں تیری دید کا پہرا رکھا

یہ بجا دودھ کی نہریں نہ بہائیں ہم نے

یہ کہو ہاتھ سے کب ہم نے یہ تیشہ رکھا

تیری سانسوں کی مہک آئے جہاں سے آئے

ہم نے دیوار میں ہر سمت دریچہ رکھا

روشنی مجھ کو بلانے میرے گھر تک آئی

اس نے دیوار پہ مٹی کا دیا 🪔کیا رکھا

مجھے اک دن کسی سائے کے حوالے سے بھی دیکھ

سوکھ جاؤں گا یونہی دھوپ میں رکھا، رکھا

قیس ہی رکھ لیا جب اپنا تخلص ہم نے

کنج آغوش میں اک دامن صحرا رکھا

قیس ہی رکھ دیا جب ہم نے تخلص اپنا

کنج آغوش میں اک دامن صحرا رکھا


سعید قیس

No comments:

Post a Comment