خود کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا
ہم نے دریا سے عجب جبر کا رشتہ رکھا
دل کو رکھا تیری یادوں کی نگہبانی میں
اور آنکھوں میں تیری دید کا پہرا رکھا
یہ بجا دودھ کی نہریں نہ بہائیں ہم نے
یہ کہو ہاتھ سے کب ہم نے یہ تیشہ رکھا
تیری سانسوں کی مہک آئے جہاں سے آئے
ہم نے دیوار میں ہر سمت دریچہ رکھا
روشنی مجھ کو بلانے میرے گھر تک آئی
اس نے دیوار پہ مٹی کا دیا 🪔کیا رکھا
مجھے اک دن کسی سائے کے حوالے سے بھی دیکھ
سوکھ جاؤں گا یونہی دھوپ میں رکھا، رکھا
قیس ہی رکھ لیا جب اپنا تخلص ہم نے
کنج آغوش میں اک دامن صحرا رکھا
قیس ہی رکھ دیا جب ہم نے تخلص اپنا
کنج آغوش میں اک دامن صحرا رکھا
سعید قیس
No comments:
Post a Comment