Sunday, 28 February 2021

یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے

 یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے

طائرِ ہجر مِری راہ نہ تکنے لگ جائے

کاش میں دل تِرے سینے میں اتاروں اپنا

اور مِرا غم تِری رگ رگ میں دھڑکنے لگ جائے

عین ممکن ہے کسی روز میں نکلوں گھر کو

اور مسکن کی طلب راہ میں تھکنے لگ جائے

لمس کا جام مِرے ہاتھ سے چھوٹے یکدم

آنکھ شرمندۂ غم ہو کے چھلکنے لگ جائے

روح تہہ خانۂ حرمت میں چھپا لے خود کو

جسم بچے کی طرح رونے بلکنے لگ جائے

پاس رہ کر بھی نہ مہندی کی مہک ماند پڑے

دور رہ کر بھی وہ کنگن نہ کھنکنے لگ جائے

کیسے اس شخص کو اپنے سے الگ کر لوں میں

کیسے اک صبح اندھیرے کو لپکنے لگ جائے

ہم تہی دستِ جنوں، مژدۂ دل کس سے کہیں

سارا عالم نہ اسی غم میں تھرکنے لگ جائے

لاکھ موسم کا نیا رخ مجھے چھیڑے باقی

لاکھ بارش میں کوئی آگ بھڑکنے لگ جائے


وجاہت باقی

No comments:

Post a Comment