مغرب کا وقت ہے سو یہ موقع بھی ہے سعود
دستِ دعا دراز کر طاری نہ ہو جمود
آیا نہیں وہ دام میں کمبخت، کیا کروں
دنیا میں سبز باغ دکھانے کے باوجود
تخلیقِ آب و گل سے نہیں شاعری سے ہے
جیسی بھی ہے، بھلی ہے، بری ہے مری نمود
بکھرا تو عمر بھر میں یہی سوچتا رہا
سمٹے گا کس طرح سے سرِ خاک اب وجود
آثار کہہ رہیں ہیں کہ سرشار ہوں ابھی
سینے میں پڑھ رہا ہے کوئی دم بخود درود
دریا کا ایک پاؤں نکلنا محال ہے
یعنی خدا نے کھینچ رکھی ہے کوئی حدود
دورانِ وصل خواب کی تمہید باندھ کر
تعبیر مت بتائے کہاں جا رہے ہو زود
اسامہ امیر
No comments:
Post a Comment