Friday 26 February 2021

آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں

 آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں

ہم وہ پیکر ہیں سرِ عرشِ برِیں ناچتے ہیں

اپنا یہ جسم تھِرکتا ہے بس اپنی دُھن پر

ہم کبھی اور کسی دُھن پہ نہیں ناچتے ہیں

اپنے رنگوں کو تماشے کا کوئی شوق نہیں

مور جنگل میں ہی رہتے ہیں وہیں ناچتے ہیں

تن کے ڈیرے میں ہے جاں مست قلندر کی طرح

واہمے تھک کے جو رکتے ہیں یقیں ناچتے ہیں

کب سے اک خواب ہے آنکھوں میں کہ تعبیر بھی ہے

اس میں گاتے ہیں مکاں، اور مکیں ناچتے ہیں


احمد صغیر

No comments:

Post a Comment