اتفاقاً جو کہیں اب وہ نظر آتے ہیں
کتنی یادوں کے حسیں نقش ابھر آتے ہیں
کیسے گزری شبِ آشفتہ سراں کس کو خبر
لوگ تو بام پہ ہنگامِ سحر آتے ہیں
سوچ لیں آپ مِرا ساتھ کہاں تک دیں گے
مرحلے سینکڑوں دورانِ سفر آتے ہیں
یوں غلط تو نہیں چہروں کا تاثر بھی مگر
لوگ ویسے بھی نہیں جیسے نظر آتے ہیں
ان سے جب ترکِ تعلق کا خیال آتا ہے
رابطے کتنے تصور میں ابھر آتے ہیں
مقبول نقش
No comments:
Post a Comment