Saturday, 27 February 2021

اندھراتا بارش برستی ہے

 اندھراتا


بارش برستی ہے

میں پردہ گرانے لگا ہوں

پلک کو پلک سے ملانے لگا ہوں

زمانہ مِرے خواب میں آ کے رونے لگا ہے

میں اونٹوں کو لے آؤں

آخر کہاں جا کے چرنے لگے ہیں

جہاں پر

پرندے پروں کو نہیں کھولتے ہیں

جہاں

سرحدیں ہیں فلک جیسی قائم

وہاں پاؤں دھرنے لگے ہیں

میں بھیڑوں کو دوہ لوں

کئی ماؤں کی چھاتیاں

چھپکلی کی طرح

سوکھے سینے کی چھت سے

ایک عرصے سے لپٹی ہوئی ہیں

انہیں جا کے موہ لوں

کئی فاختائیں

کہ واپس پلٹنا تھا جن کو

چمکتی دوپہروں سے پہلے

وہ مرگ آسا اندھے خلاؤں میں

بھٹکی ہوئی ہیں

گدھے والا

بے وزن روئی کو لادے ہوئے

شہر سے لوٹ آیا ہے

ہلکی تھی روئی

بہت بھاری دن تھا

طلہ دوز تاجر سے

موتی بھی لانے کا

اس سے کہا تھا

جو رنگین عروسانہ جوڑے میں

جڑنے ہیں

ناداں دُلہن کو بھی معلوم ہے

تیز بارش تو ہونی ہے

اولے تو پڑنے ہیں

نازک سی ٹہنی پہ جُھولا ہے

جُھولے کی رسی ہے نازک

سو رسّی میں بل آخرِ کار پڑنے ہیں

اندھراتا بڑھنے لگا ہے

مچھیرے نے دریا سے واپس بھی آنا ہے

تندور میں

گیلی شاخیں جلانی ہیں

تندور کی طرح

خوابوں بھری جل رہی ہے

اسے بھی

کشادہ، بھرے بازوؤں میں تو آنا ہے


اقتدار جاوید

No comments:

Post a Comment