تجھ پہ ہر حال میں مرنا چاہوں
میں تو یہ کام ہی کرنا چاہوں
حاصل زیست ہے جرم الفت
مر کے بھی میں نہ مکرنا چاہوں
اپنے اسلوب میں چاہوں جینا
اپنے انداز میں مرنا چاہوں
متوجہ کرے کوئی تو اسے
مثل گل میں بھی نکھرنا چاہوں
کتنا محدود ہوا جاتا ہوں
میں کہ ہر حد سے گزرنا چاہوں
ایک جگنو ہوں مگر دیکھ انداز
صبح کی طرح بکھرنا چاہوں
صورت نغمۂ جاں اے روحی
میں ترے دل میں اترنا چاہوں
روحی کنجاہی
No comments:
Post a Comment