فتح تو سلطنتیں کر لو گے تلوار کے ساتھ
دل اگر جیتنا مقصود ہو تو پیار کے ساتھ
فرق دونوں میں ہے یارو! زمیں و آسماں کا
مت کرو مہ کو برابر مِرے دلدار کے ساتھ
وائے دنیا کی خبر تھی نہ مجھے اپنا پتہ
ہائے وہ دن جو گزارے تھے میں نے یار کے ساتھ
عشق کہتے ہیں جسے ہے یہ مرض اور طرح
آہ، یہ خاک تلک جاتا ہے بیمار کے ساتھ
غم کی تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے مِرا گھر
کیسے چپکی ہے اداسی در و دیوار کے ساتھ
سر سلامت ہے غنیمت ہے بڑی بات ہے یہ
شیخ میخانے میں آئے تو تھے دستار کے ساتھ
جان لیں سارے اطباء ہمیں الفت کا ہے روگ
جان جائے گی ہماری بس اس آزار کے ساتھ
ماوراء ہے مِرے ادراک سے گلشن کا مزاج
دل لگا ہے مِرا جنگل کے خس و خار کے ساتھ
مت کہو حق یہاں یارو! تمہیں معلوم تو تھا
حق پہ منصور کو لٹکا دیا تھا دار کے ساتھ
ہاں گنہ گار ہے پر جھوٹ نہیں بولتا ہے
اس لیے بنتی ہے حاوی مِری میخوار کے ساتھ
حاوی مومن آبادی
No comments:
Post a Comment