ہجر کو تم مِری اس طرح سے قسمت کر دو
رنجِ فرقت کو ہی تم اب مِری عادت کر دو
اپنے ناخن سے کریدو مِرے زخموں کو سدا
اک مسلسل سی شب و روز اذیت کر دو
مجھ کو دیکھو نہ محبت کی نظر سے اک پل
مجھ پہ احسان کی صورت کبھی غفلت کر دو
تم کو بھولے سے بھی آئے نہ کبھی میرا خیال
اپنے دل سے مِری ہر یاد کو رخصت کر دو
اپنے افسانے کا آغاز نہ انجام کوئی
از ازل تا بہ ابد ایسی روایت کر دو
یوں اتارو مِرے آنگن میں اندھیری شامیں
میرے ہر دن کو سیاہ رات کی صورت کر دو
مجھ پہ ہر لحظہ اٹھائے رکھو محشرکا سماں
زندگی میرے لیے مثلِ قیامت کر دو
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment