میں بجھتی آنکھوں میں بہرے کانوں میں رہ گیا تھا
میں شور تھا جو بدن مکانوں میں رہ گیا تھا
ہماری تالی دھنک کے رنگوں میں کھو گئی تھی
ہمارا قصہ وہ قہوہ خانوں میں رہ گیا تھا
تمام سمتوں میں تُو ہی تُو تھا کہاں میں جاتا؟
میں ساری سمتوں کے درمیانوں میں رہ گیا تھا
میں بیس سالوں میں چار حصوں میں بٹ چُکا تھا
میں زندگی کے تمام خانوں میں رہ گیا تھا
میں اپنی بستی کی ویراں گلیوں کا عینی شاہد
میں بانجھ صحرا کے گَلہ بانوں میں رہ گیا تھا
طلحہ رحمان
No comments:
Post a Comment