گھر کے برآمدوں میں پڑے بدحواس ہو
اے فروری کے لمحو کہو کیوں اداس ہو
ہم تم کنارِِ آب ہوں جنگل میں خیمہ زن
آگے پلیٹ میں بُھنے تِیتر کا ماس ہو
آؤ نا پھر بسائیں پہاڑوں پر بستیاں
ان زلزلوں کے ساتھ کڑا ٭اتہاس ہو
شاید ملیں کہیں وہ سفیرانِ کربلا
شاید مجھے مسافتِ ماضی ہی راس ہو
جیون کی ان انیلی، نویلی ٭٭دِشاؤں میں
تم ہی سکھی سہیلی مِرے آس پاس ہو
اور اوک سے پلائے وہ پانی مجھے کہیں
اور میرے تن بدن کو سمندر کی پیاس ہو
سید ناصر شہزاد
٭اتہاس= تاریخ
٭٭دِشا= سمت
No comments:
Post a Comment