Thursday, 25 February 2021

گھر کے برآمدوں میں پڑے بدحواس ہو

 گھر کے برآمدوں میں پڑے بدحواس ہو

اے فروری کے لمحو کہو کیوں اداس ہو

ہم تم کنارِِ آب ہوں جنگل میں خیمہ زن

آگے پلیٹ میں بُھنے تِیتر کا ماس ہو

آؤ نا پھر بسائیں پہاڑوں پر بستیاں

ان زلزلوں کے ساتھ کڑا ٭اتہاس ہو

شاید ملیں کہیں وہ سفیرانِ کربلا

شاید مجھے مسافتِ ماضی ہی راس ہو

جیون کی ان انیلی، نویلی ٭٭دِشاؤں میں

تم ہی سکھی سہیلی مِرے آس پاس ہو

اور اوک سے پلائے وہ پانی مجھے کہیں

اور میرے تن بدن کو سمندر کی پیاس ہو


سید ناصر شہزاد

٭اتہاس= تاریخ

٭٭دِشا= سمت

No comments:

Post a Comment