یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے
کہ تیرے ذکر تِری گفتگو کے ساتھ آئے
میں ایک نخل تھا یک رنگئ خزاں کا اسیر
یہ سارے رنگ تِری آرزو کے ساتھ آئے
جو کھو گئے تھے کہیں عمر کے دھندلکوں میں
وہ عکس پھر کسی آئینہ رو کے ساتھ آئے
فروغ نشۂ مے سے بھی جی بہل نہ سکا
بہت سے غم تھے جو موجِ سبُو کے ساتھ آئے
گِلا نہ کر جو سرِ شہرِ جُوئے خوں ہے رواں
کہ انقلاب جب آئے لہو کے ساتھ آئے
گئے تو صرف متاعِ سکوت لے کے گئے
جو اس نگر میں بڑی ہاؤ ہو کے ساتھ آئے
فراست اہلِ جہاں ہمسفر ہیں خوشیوں کے
مقامِ رنج تلک کب کسو کے ساتھ آئے
فراست رضوی
No comments:
Post a Comment