Thursday 25 February 2021

جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی

 جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی

خواب تو دے دئیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی

بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں

شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی

اس کی خاموشی مِری راہ میں آ بیٹھی ہے

میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی

ہم تِرے ساتھ تِرے جیسا رویہ رکھتے

دینے والے نے مگر ایسی طبیعت نہیں دی

مجھ سے جو تنگ ہوا میں نے اسے چھوڑ دیا

اس کو خود چھوڑ کے جانے کی بھی زحمت نہیں دی

ہم تھے محتاط تعلق میں توازن رکھا

پاسِ الفت رہا حد درجہ عقیدت نہیں دی

جس قدر ٹوٹ کے چاہا اسے ہم نے

اس سخی نے ہمیں اتنی بھی تو نفرت نہیں دی


احمد اشفاق

No comments:

Post a Comment