جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی
خواب تو دے دئیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی
بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں
شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی
اس کی خاموشی مِری راہ میں آ بیٹھی ہے
میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی
ہم تِرے ساتھ تِرے جیسا رویہ رکھتے
دینے والے نے مگر ایسی طبیعت نہیں دی
مجھ سے جو تنگ ہوا میں نے اسے چھوڑ دیا
اس کو خود چھوڑ کے جانے کی بھی زحمت نہیں دی
ہم تھے محتاط تعلق میں توازن رکھا
پاسِ الفت رہا حد درجہ عقیدت نہیں دی
جس قدر ٹوٹ کے چاہا اسے ہم نے
اس سخی نے ہمیں اتنی بھی تو نفرت نہیں دی
احمد اشفاق
No comments:
Post a Comment