روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے
سانس بھی جسم کنارے پہ پڑی رہتی ہے
شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مجھ کو
شاعری وقت کے دھارے پہ پڑی رہتی ہے
دور سے دیکھ کے مدھم یوں نظر آتا ہے
روشنی جیسے ستارے پہ پڑی رہتی ہے
اپنے مطلب کو بدن میرا جلاتے ہیں یہ دوست
جیسے اِک سیخ انگارے پہ پڑی رہتی ہے
طُول بیماری کو دیتی ہیں دوائیں ساری
اور صحت بھی گُزارے پہ پڑی رہتی ہے
یاد آتے ہو تو پھر اشک رواں ہوتے ہیں
یہ مِری آنکھ اِشارے پہ پڑی رہتی ہے
میرے ملنے سے وہ تجسیم نہیں ہو سکتا
میں ہوں اِک اینٹ جو گارے پہ پڑی رہتی ہے
پہلے کُچھ سال جوانی میں گُزر جاتے ہیں
باقی کی عمر سہارے پہ پڑی رہتی ہے
مجھ کو غزل دُور سے یوں دیکھتی ہے
جیسے اک آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے
حسان احمد
Thanks 😊. Visit my official blog for more of my writings.
ReplyDeletehttps://hassaanahmadawan.com/
السلام علیکم حسان جی، بلاگ پر آُ کو خوش آمدید کہتا ہوں، جی میں نے آپ کی ویب سائٹ دیکھی ہے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ کی اپنی سائٹ ہے اس لیے جتنا مواد میرے پاس ہے وہی کافی ہے۔ اگر چاہتے ہیں کہ مواد کو رہنے دیا جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ اسے ہٹا دوں گا، جو مناسب سمجھیں وہ بتا دیجیے گا۔
Delete