Tuesday, 16 March 2021

روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے

 روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے

سانس بھی جسم کنارے پہ پڑی رہتی ہے

شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مجھ کو

شاعری وقت کے دھارے پہ پڑی رہتی ہے

دور سے دیکھ کے مدھم یوں نظر آتا ہے

روشنی جیسے ستارے پہ پڑی رہتی ہے

اپنے مطلب کو بدن میرا جلاتے ہیں یہ دوست

جیسے اِک سیخ انگارے پہ پڑی رہتی ہے

طُول بیماری کو دیتی ہیں دوائیں ساری

اور صحت بھی گُزارے پہ پڑی رہتی ہے

یاد آتے ہو تو پھر اشک رواں ہوتے ہیں

یہ مِری آنکھ اِشارے پہ پڑی رہتی ہے

میرے ملنے سے وہ تجسیم نہیں ہو سکتا

میں ہوں اِک اینٹ جو گارے پہ پڑی رہتی ہے

پہلے کُچھ سال جوانی میں گُزر جاتے ہیں

باقی کی عمر سہارے پہ پڑی رہتی ہے

مجھ کو غزل دُور سے یوں دیکھتی ہے

جیسے اک آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے


حسان احمد

2 comments:

  1. Thanks 😊. Visit my official blog for more of my writings.
    https://hassaanahmadawan.com/

    ReplyDelete
    Replies
    1. السلام علیکم حسان جی، بلاگ پر آُ کو خوش آمدید کہتا ہوں، جی میں نے آپ کی ویب سائٹ دیکھی ہے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ کی اپنی سائٹ ہے اس لیے جتنا مواد میرے پاس ہے وہی کافی ہے۔ اگر چاہتے ہیں کہ مواد کو رہنے دیا جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ اسے ہٹا دوں گا، جو مناسب سمجھیں وہ بتا دیجیے گا۔

      Delete