پاس ہو کر سراب لگتا ہے
ساتھ ہے اور خواب لگتا ہے
غیر کی بات جھٹ سے مانے گا
میرا کہنا خراب لگتا ہے
اس کے گھر ہے عجیب سی خوشبو
اور خود بھی گلاب لگتا ہے
مجھ کو ہی دے گیا اندھیرا کیوں
سب کو وہ ماہتاب لگتا ہے
وہ جو خوش خوش دکھائی دینے لگا
میرے غم کا جواب لگتا ہے
میگی اسنانی
No comments:
Post a Comment