وہ جو سکوتِ دو عالم سے ہمکلام نہیں
وہ بزم بزم نہیں ہے وہ جام جام نہیں
اٹھو اٹھو کہ یہ دنیا ہے جادۂ منزل
چلو چلو کہ ٹھہرنے کا یہ مقام نہیں
ابھی بھی راہِ وفا کو تلاش ہے تیری
یہ اور بات کہ تو مائلِ خرام نہیں
ابھی بھی عقدۂ دل کی کشود ممکن ہے
محبتیں ابھی باقی ہیں گرچہ عام نہیں
ابھی نجانے گزرنا ہے کیسی راہوں سے
کہ موت قصۂ ہستی کا اختتام نہیں
جو لوگ خانۂ دل کے مکین تھے ریحان
زمانہ گزرا ہے اُن سے دُعا سلام نہیں
ریحان احمد تانترے
No comments:
Post a Comment