کون کہتا ہے کہ میں تجھ کو جدائی دوں گی
تُو جو مانگے تو تجھے ساری خدائی دوں گی
تھوڑا روئی ہوں تو دل ہو گیا ہلکا میرا
خود میں گونجی ہوں، ابھی تجھ کو سنائی دوں گی
دل تلک آ ہی گیا ہے تو اسے اپنا سمجھ
اب تو میں روح تلک تجھ کو رسائی دوں گی
دل مِرا گھُٹنے لگا ہے تیری خاموشی سے
تُو صدا دے تو تجھے دستِ حنائی دوں گی
وہم ہے تیرا کہ تو مجھ کو بھلا سکتا ہے
تُو جدھر دیکھ، تجھے میں ہی دکھائی دوں گی
میرا دنیا میں فرح کوئی نہیں تیرے سوا
تُو ہی دُکھ دے گا تو میں کس کو دُہائی دوں گی
فرح شاہد
No comments:
Post a Comment