Thursday, 29 April 2021

نقطے تھے انتظار کے جن سے بنا ہے دل

 نقطے تھے انتظار کے، جن سے بنا ہے دل

مرکز ہیں جس کا آپ، وہی دائرہ ہے دل

باقی ہیں راہِ عشق میں گو بے شمار موڑ

سانول مہار موڑ کہ اب تھک گیا ہے دل

کیسے کروں عبور وفا کے چناب کو

یہ تُم بھی جانتے ہو کہ کچا گھڑا ہے دل

شاید وہ ایک حلقۂ زنجیرِ وقت تھا

لمحوں کے ساتھ ساتھ گرزتا گیا ہے دل

کرتا ہوں میں کسی کے خیالوں سے گفتگو

قاصر کبھی جو ساتھ مرا چھوڑتا ہے دِل


غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment