نقطے تھے انتظار کے، جن سے بنا ہے دل
مرکز ہیں جس کا آپ، وہی دائرہ ہے دل
باقی ہیں راہِ عشق میں گو بے شمار موڑ
سانول مہار موڑ کہ اب تھک گیا ہے دل
کیسے کروں عبور وفا کے چناب کو
یہ تُم بھی جانتے ہو کہ کچا گھڑا ہے دل
شاید وہ ایک حلقۂ زنجیرِ وقت تھا
لمحوں کے ساتھ ساتھ گرزتا گیا ہے دل
کرتا ہوں میں کسی کے خیالوں سے گفتگو
قاصر کبھی جو ساتھ مرا چھوڑتا ہے دِل
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment