اس کے طرزِ گفتگو پہ دل فدا ہو جائے گا
ہاں مگر یہ دل کبھی صحرا نما ہو جائے گا
ہو اگر ممکن صدف کی راہ دِکھلا دے اسے
ورنہ ہر قطرہ ہواؤں میں ہوا ہو جائے گا
آدمی نے آج تک کھویا نہیں اپنا وجود
آئینہ ٹوٹا اگر تو حادثہ ہو جائے گا
باندھ لے رختِ سفر جب فاصلے کا ڈر نہیں
با عمل ہے جو بھی منزل آشنا ہو جائے گا
سوچ کر رکھنا ہمیشہ اپنی چاہت کا بھرم
ورنہ خود سے تُو ہی خود نا آشنا ہو جائے گا
ڈاکٹر انوری بیگم
No comments:
Post a Comment