Friday 30 April 2021

ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار چھٹ جائے

 ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار، چھٹ جائے

وہ کچھ کہے نہ سنے، مجھ سے بس لپٹ جائے

اسی لیے تو تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں

میں چاہتا ہوں سفر خیریت سے کٹ جائے

میں روند دوں گا محبت کو اپنے پیروں تلے

اسے کہو کہ مِرے راستے سے ہٹ جائے

میں تیرا ذِکر کروں اپنے شعر میں، یعنی

فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے

جھکا ہوا ہوں تِرے سامنے میں اور اسی وقت

ہے میرا دنیا سے جو رابطہ وہ کٹ جائے


حذیفہ ہارون

No comments:

Post a Comment