Friday, 30 April 2021

ہم بھی یقین وعدۂ فردا نہ کر سکے

ہم بھی یقین وعدۂ فردا نہ کر سکے

دو دن کی زندگی کا بھروسا نہ کر سکے

احساں مریض غم پہ مسیحا نہ کر سکے

اچھا یہی ہوا کہ وہ اچھا نہ کر سکے

رعنائی خیال ہمیں روکتی رہی

موقع بھی تھا تو عرض تمنا نہ کر سکے

کچھ بات ہے کہ ہم سے محبت ہوئی نہ ترک

کرنا بھی چاہتے تھے تو ایسا نہ کر سکے

زندہ دلوں کو زندۂ جاوید کر دکھاؤ

وہ کام تم کرو جو مسیحا نہ کر سکے

فرصت ہمیں ملی نہ غم ہجر یار سے

سامان انبساط مہیا نہ کر سکے

اپنا ہی اعتبار نہیں اس جہان میں

کیسے کہیں کہ تم پہ بھروسا نہ کر سکے

کیسے بیاں ہو ہم سے کسی دل کی آرزو

خلوت نشیں کو انجمن آرا نہ کر سکے

ثاقب جہاں میں آ کے کیا ہم نے کیا اگر

اس جانِ آرزو کی تمنا نہ کر سکے


ثاقب عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment