ہم بھی یقین وعدۂ فردا نہ کر سکے
دو دن کی زندگی کا بھروسا نہ کر سکے
احساں مریض غم پہ مسیحا نہ کر سکے
اچھا یہی ہوا کہ وہ اچھا نہ کر سکے
رعنائی خیال ہمیں روکتی رہی
موقع بھی تھا تو عرض تمنا نہ کر سکے
کچھ بات ہے کہ ہم سے محبت ہوئی نہ ترک
کرنا بھی چاہتے تھے تو ایسا نہ کر سکے
زندہ دلوں کو زندۂ جاوید کر دکھاؤ
وہ کام تم کرو جو مسیحا نہ کر سکے
فرصت ہمیں ملی نہ غم ہجر یار سے
سامان انبساط مہیا نہ کر سکے
اپنا ہی اعتبار نہیں اس جہان میں
کیسے کہیں کہ تم پہ بھروسا نہ کر سکے
کیسے بیاں ہو ہم سے کسی دل کی آرزو
خلوت نشیں کو انجمن آرا نہ کر سکے
ثاقب جہاں میں آ کے کیا ہم نے کیا اگر
اس جانِ آرزو کی تمنا نہ کر سکے
ثاقب عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment