غیر کا سُنتے ہی چہرے پہ ندامت آئی
صدقے تیرے کہ جسے اتنی تو غیرت آئی
یاد کیا اُن کو مریضوں کی عیادت آئی
شور اٹھنے لگا ،آئی، ارے آفت آئی
یوں تِری یاد سے یکلخت قیامت آئی
چیر کر جیسے شبِ وصل کو فرقت آئی
بن سنور کر جو سرِ بزم وہ صورت آئی
حضرتِ شیخ کے دل میں بھی شرارت آئی
قتل کر کر کے رقیبوں کا مجھے کہتے ہیں
غور سے دیکھ لے، اگلی تیری شامت آئی
قہر بھی، ظلم بھی، آفت بھی، ستم بھی، ضد بھی
ایک سے ایک حسینوں کو قیامت آئی
دیکھا مجھ کو تو سرِ بزم کہا سج دھج کر
یہ بھی اک عرش سے حیوان کی صورت آئی
خلق کا راز ہو تم، حشر کا دعویٰ ہو تم
اس پہ یہ قہر مِری تم پہ طبعیت آئی
وقتِ اظہار جو ہکلایا تو گھبرا کے کہا
کچھ بکے گا بھی کہ پھر کوئی مصیبت آئی
پھر پلٹ کر نہ گئی اور کسی کے در پر
گھومتی گھومتی مجھ تک جو قیامت آئی
رازِ دل کہہ دیا غیروں میں تو غصے سے کہا
تُو گیا، بس تُو گیا، تیری تو شامت آئی
مر کے بھی بھُولے نہ آداب تِرے کوچے کے
آبِ زم زم میں نہا کر میری میت آئی
حوصلے بخشے ہیں رندوں کو وہ رحمت نے تِری
دوزخ آئی بھی تو کہہ دیں گے کہ جنت آئی
شہر کے شہر فنا کر دیئے پر آخرِ کار
فتنہ ساز آنکھوں کو لاہور میں راحت آئی
پھینکا ہے ایسی جگا لا کے تِرے غم نے کہ میں
پوچھتا پھرتا ہوں اک اک سے قیامت آئی
اک پہ اک حور گِری سُن کے غزل حمزہ کی
گرم اشعار سے کمبخت کے آفت آئی
حمزہ عمران
No comments:
Post a Comment