Thursday, 29 April 2021

ایک پرانا خواب بہت قدیم سا وہ گھر

 ایک پرانا خواب


بہت قدیم سا وہ گھر

بہت بہت قدیم سا

وہ پتھروں کا گھر کوئی

اسی کے ایک تنگ سے کواڑ میں کھڑی ہوئی

وہ کون تھی

وہ کون تھی جو خواب میں علیل تھی

وہ جس کے زرد جسم کا تمہیں بہت خیال تھا

رقیب تھی مری

مگر بھلی بھلی لگی مجھے

تھی اس کے زرد رنگ پر گھنی اداسیوں کی رُت

پگھل پگھل کے گِر رہا تھا اُس کی آستیں پہ دُکھ

مِری تو روح خوف سے لرز گئی

نگاہ چیخنے لگی

یہ کون ہے، یہ کون ہے

اسی گھڑی

تمہاری اک نگاہ نے جھکے جھکے یہ کہہ دیا،

کہ؛ یہ علیل ہے بہت

اسے مِرا ذرا سا دھیان چاہئے

یہ جب بھی تندرست ہو گئی، میں لوٹ آؤں گا

اے زرد رُو

میں جانتی نہیں تجھے

تُو کون تھی، نہیں پتا

مگر تِری حیات کی دُعا مِری حیات ہے

تُو تندرست ہو کے کب دکھائے گی


فریحہ نقوی

No comments:

Post a Comment