Friday, 30 April 2021

کیمیا گر پرکھ تو سہی اور پرکھ کر ہمیں بتا

 کیمیا گر پرکھ تو سہی

اور پرکھ کر ہمیں بتا

کون سی دھات کے خواب ہیں

جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر

کیمیا گر

ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر

پر ہماری کسی بات پر یوں نہ ہنس

کہ ہماری جگہ تِرے آنسو نکل آئیں ہم ہنس پڑیں

کیمیا گر اگرچہ ہماری مسافت کی گھڑیاں زیادہ نہیں

اور ہمارا بدن بھی تھکن سے نہیں ٹوٹتا

اور آنکھیں بھی زندہ ہیں دل کی طرح

پر ہمیں اس مسافت میں رہنے کے سارے پیچ و خم

کھا گئے

دوستوں نے جو ڈالے تھے یہ سوچ کر

کہ ہمیں اپنی منزل سے پہلے تھکن لُوٹ لے

کیمیا گر

ہمارا ہنر دیکھ، ہم نے کٹھن راستوں کے سیہ پتھروں کو

لہو کی اَنی اور نظر کی ہتھوڑی سے کیسے تراشا

کہ اب لوگ ان کو بھی خوابوں کی تعبیر کہنے لگے

کیمیا گر

زرِ خواب سے آنکھ خالی ہوئی

پاس کچھ بھی نہیں

کچھ پرکھ تو سہی

کچھ بتا تو سہی

کون سی دھات کے خواب ہیں

جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر


نامعلوم

No comments:

Post a Comment