کیمیا گر پرکھ تو سہی
اور پرکھ کر ہمیں بتا
کون سی دھات کے خواب ہیں
جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر
کیمیا گر
ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر
پر ہماری کسی بات پر یوں نہ ہنس
کہ ہماری جگہ تِرے آنسو نکل آئیں ہم ہنس پڑیں
کیمیا گر اگرچہ ہماری مسافت کی گھڑیاں زیادہ نہیں
اور ہمارا بدن بھی تھکن سے نہیں ٹوٹتا
اور آنکھیں بھی زندہ ہیں دل کی طرح
پر ہمیں اس مسافت میں رہنے کے سارے پیچ و خم
کھا گئے
دوستوں نے جو ڈالے تھے یہ سوچ کر
کہ ہمیں اپنی منزل سے پہلے تھکن لُوٹ لے
کیمیا گر
ہمارا ہنر دیکھ، ہم نے کٹھن راستوں کے سیہ پتھروں کو
لہو کی اَنی اور نظر کی ہتھوڑی سے کیسے تراشا
کہ اب لوگ ان کو بھی خوابوں کی تعبیر کہنے لگے
کیمیا گر
زرِ خواب سے آنکھ خالی ہوئی
پاس کچھ بھی نہیں
کچھ پرکھ تو سہی
کچھ بتا تو سہی
کون سی دھات کے خواب ہیں
جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر
نامعلوم
No comments:
Post a Comment