محبت کی منزل
ایسے تو نہیں چھیڑو میرے جسم کے طنبورے کو
جیسے کوئی بچہ شرارت کرے
میرا جسم کوئی راز نہیں ہے
جسے دریافت کرنے کے لیے
کسی نقشے کی ضرورت ہو
یہ الجبرا کا سوال نہیں ہے
جس کا پہلے سے فارمولا تیار ہو
اس ساز کو بجانے کے لیے کوئی بھی ترکیب
دنیا کی کسی بھی کتاب میں درج نہیں
یہ ساز از خود بجنے لگے اگر
تیرے نین محبت کے دِیے بن کر جل اٹھیں
تیری انگلیوں کی پوریں
میرے جسم پر ایسے سفر کرتی ہیں
جیسے کوئی مہم جو پہاڑ کی چوٹی پر
فتح کا پرچم لہرانا چاہے
برف کا پہاڑ بھی پگھلنے لگے اگر
تیرے ہاتھ میرے پر بن کر
مجھے محبت کی منزل کی طرف
اڑا کر لے جائیں
عطیہ داؤد
No comments:
Post a Comment