Friday 30 April 2021

عذاب رت میں جو اترے وہ کیا صحیفے تھے

 عذاب رُت میں جو اُترے وہ کیا صحیفے تھے

گُلاب شہر کے حا کم ببُول زادے تھے

جو آج سر سے اُٹھا میر ے باپ کا سایہ

نظر پڑا ہے کہ کتنے یتیم بچے تھے

وہ جس کی لاش کو کاندھا دیا ہے غیروں نے

پرائے دیس میں اس کے بھی چار بیٹے تھے

اب ایک خوف بسا ہے تمام کمروں میں

وہ دن گئے کہ چھتوں پر بھی لوگ سوتے تھے

تمہارے بعد یہ احساس ہو رہا تھا مجھے

تمہارے ساتھ ہی پھولوں کے شہر ہوتے تھے

ہوا ہوئے ہیں زمانے کی تلخیوں میں مگر

ہمارے ذہن میں کتنے خیال پارے تھے


کلیم احسان بٹ

No comments:

Post a Comment