Friday, 30 April 2021

اب کہاں بندے خدا کے ملتے ہیں

 اب کہاں بندے خدا کے ملتے ہیں

لوگ اب مقصد بنا کے ملتے ہیں

منتظر ہیں آج بھی سب فاصلے

فاصلوں کو چل مٹا کے ملتے ہیں

بس تعارف میں یہی کہہ دو مرے

ہم تعلق کو نبھا کے ملتے ہیں

وہ لگا کر ضرب میرے ضبط کو

روز ہم سے مسکرا کے ملتے ہیں

خود کو بھی ہم نے چھپا رکھا ہے اب

خود سے بھی ہم چُھپ چُھپا کے ملتے ہیں

کتنے صحراؤں کو پل میں چھانا ہے

مجھ سے صحرا بھی چُرا کے ملتے ہیں

رکھتے ہیں ہم بھی بلا کا حافظہ

ملتے ہیں توسب بھلا کے ملتے ہیں

ہم منافق تو نہیں اوروں کی طرح

ہم سبھی سے سر اُٹھا کے ملتے ہیں

باندھ رکھا ہے یوں بھی دل کو اتاش

دل کو ہم سمجھا بُجھا کے ملتے ہیں


ذیشان اتاش

No comments:

Post a Comment