اب کہاں بندے خدا کے ملتے ہیں
لوگ اب مقصد بنا کے ملتے ہیں
منتظر ہیں آج بھی سب فاصلے
فاصلوں کو چل مٹا کے ملتے ہیں
بس تعارف میں یہی کہہ دو مرے
ہم تعلق کو نبھا کے ملتے ہیں
وہ لگا کر ضرب میرے ضبط کو
روز ہم سے مسکرا کے ملتے ہیں
خود کو بھی ہم نے چھپا رکھا ہے اب
خود سے بھی ہم چُھپ چُھپا کے ملتے ہیں
کتنے صحراؤں کو پل میں چھانا ہے
مجھ سے صحرا بھی چُرا کے ملتے ہیں
رکھتے ہیں ہم بھی بلا کا حافظہ
ملتے ہیں توسب بھلا کے ملتے ہیں
ہم منافق تو نہیں اوروں کی طرح
ہم سبھی سے سر اُٹھا کے ملتے ہیں
باندھ رکھا ہے یوں بھی دل کو اتاش
دل کو ہم سمجھا بُجھا کے ملتے ہیں
ذیشان اتاش
No comments:
Post a Comment