Thursday 29 April 2021

عشق دریا ہے گرانبار نہ جانے کوئی

 عشق دریا ہے گراں بار نہ جانے کوئی

بہتے پانی کو گنہ گار نہ جانے کوئی

اس میں روحوں کی ملاقات ہوا کرتی ہے

خواب کے پیار کو بےکار نہ جانے کوئی

میں جو حالات کے دھارے میں بہی جاتی ہوں

مجھ کو لہروں کا طرفدار نہ جانے کوئی

سر جھکایا ہے محبت میں محبت کیلئے

اس محبت کو مِری ہار نہ جانے کوئی

میں یوں ہی وقت گزاری کو چلی آئی ہوں

مجھ کو خوابوں کا خریدار نہ جانے کوئی

مجھ کو حالات کی تلخی نے کیا ہے برہم

میری گفتار کو تلوار نہ جانے کوئی

یاد آتے ہی غزل بنتی ہے میری بلقیس

ساعت ہجر کو آزار نہ جانے کوئی


بلقیس خان

No comments:

Post a Comment