Wednesday 28 April 2021

گلہ نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا

 گِلا نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا

مِرے سفینے کا دھاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

رہِ حیات میں منزل کا آسرا کیسا

قدم قدم پہ غباروں نے ساتھ چھوڑ دیا

ہر ایک رخ سے سجا ہوتا زندگی کو مگر

میں کیا کروں کہ بہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

اداس دل نے اگر گیت گنگنایا بھی

شکستہ ساز کے تاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

سُلگ رہی ہے ابھی تک وہ آگ سینے میں

لگا کے جس کو شراروں نے ساتھ چھوڑ دیا

نظر نواز مذاق نظر نہ زیؔب ہوا

تِرے لطیف اشاروں نے ساتھ چھوڑ دیا


زیب بریلوی

No comments:

Post a Comment