عشق میں ہوتا نہيں نفع، خسارا یارا
جھوٹ مت بول مِرے ساتھ، خدارا یارا
خاک چھانی بھی گئی، خاک اُڑائی بھی گئی
خاک سے نکلا نہيں کوئی ستارا، یارا
تجھ سے تشکیلِ خد و خال نہيں ہو سکتی
لے کے آ جا تُو مِرے چاک پہ گارا، یارا
میری دریا سی طبیعت تجھے لے ڈوبے گی
مجھ سے بہتر ہے کہ تُو کر لے کنارا، یارا
عمر بھر لوگ پکارا کیۓ جاناں، جاناں
ہم فقیروں کا وہی نعرہ کہ، یارا، یارا
تم ابھی نیند کی وادی میں نئے آئے ہو
تم پہ کُھل سکتا نہيں خواب ہمارا، یارا
اپنی تنہائی لیے ساتھ مِرے آ بیٹھا
میں نے تنہائی میں جس جس کو پکارا، یارا
اس نے لوگوں کو دِکھایا کہ محبت کیا ہے
آج پھر میری طرف کر کے اشارا، یارا
خود سمندر نے مجھے دے دیا رستہ عامی
میں نے پانی پہ عصا بھی نہيں مارا، یارا
عمران عامی
No comments:
Post a Comment