ڈھلتی شام کا منظر آنکھ میں رہتا ہے
اک خاموش سمندر آنکھ میں رہتا ہے
دل پر خون کے آنسو گرتے رہتے ہیں
شاید کوئی خنجر آنکھ میں رہتا ہے
جانے والا مدتوں پہلے بچھڑا تھا
لیکن اس کا پیکر آنکھ میں رہتا ہے
جلتی لاشوں پر آنسو کب بہتے ہیں
یوں لگتا ہے پتھر آنکھ میں رہتا ہے
میں بخشش کو اک در جاتا رہتا ہوں
اور بخشش کو اک گھر آنکھ میں رہتا ہے
شہباز رسول فائق
No comments:
Post a Comment