اک شخص کبھی یہ نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں
حالانکہ اسے بار ہا سمجھایا کہ میں ہوں
میں مان کے بھی مان نہ پایا کہ نہیں وہ
وہ جان کے بھی جان نہیں پایا کہ میں ہوں
بے دخل مجھے کر کے بھی بے چین رہا وہ
جب دل میں اٹھی ٹیس، وہ گھبرایا کہ میں ہوں
کچھ لوگ مجھے رکھ کے کہیں بھول گئے تھے
جب وقت پڑا کوئی تو یاد آیا کہ میں ہوں
کل وقت ہی سمجھائے گا یہ بات کہ میں تھا
تو آج اگر خود نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں
ہے کون جو ہر روپ میں چلتا ہے تِرے ساتھ
یہ چاند ہے، بادل ہے، تِرا سایہ کہ میں ہوں
پھر اور کرے گا مِرے ہونے کا یقیں کون
اب تک تو مجھے خود نہ یقیں آیا کہ میں ہوں
آئینے میں اک عکس تو ابھرا ہے عدیل آج
معلوم نہیں ہے کوئی دوجا یا کہ میں ہوں
عدیل جعفری
No comments:
Post a Comment