Thursday, 29 April 2021

اک شخص کبھی یہ نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں

 اک شخص کبھی یہ نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں

حالانکہ اسے بار ہا سمجھایا کہ میں ہوں

میں مان کے بھی مان نہ پایا کہ نہیں وہ

وہ جان کے بھی جان نہیں پایا کہ میں ہوں

بے دخل مجھے کر کے بھی بے چین رہا وہ

جب دل میں اٹھی ٹیس، وہ گھبرایا کہ میں ہوں

کچھ لوگ مجھے رکھ کے کہیں بھول گئے تھے

جب وقت پڑا کوئی تو یاد آیا کہ میں ہوں

کل وقت ہی سمجھائے گا یہ بات کہ میں تھا

تو آج اگر خود نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں

ہے کون جو ہر روپ میں چلتا ہے تِرے ساتھ

یہ چاند ہے، بادل ہے، تِرا سایہ کہ میں ہوں

پھر اور کرے گا مِرے ہونے کا یقیں کون

اب تک تو مجھے خود نہ یقیں آیا کہ میں ہوں

آئینے میں اک عکس تو ابھرا ہے عدیل آج

معلوم نہیں ہے کوئی دوجا یا کہ میں ہوں


عدیل جعفری

No comments:

Post a Comment