آئے تھے راہِ عشق میں گو مرحلے بہت
ہم اہلِ درد پھر بھی اسی پر چلے بہت
جی میں ہے آسمان و زمیں سب میں بانٹ دوں
بے گھر ہیں، بد نصیب ہیں عنبر تلے بہت
مایوس ہوں تو موت سے بدتر ہے یہ حیات
ہر زندہ دل کے واسطے ہیں مشغلے بہت
اب تک نہ ڈگمگائے قدم راہِ عشق میں
ترک و طلب کے آتے رہے زلزلے بہت
پروانے کے حریف محبت میں تھے نہ ہیں
جلنے کو یوں تو آتشِ غم میں جلے بہت
منزل قریب تر ہے،۔ قدم تیز تر بڑھا
کیوں سرد پڑ گئے ہیں تِرے ولولے بہت
ہم تو خرابِ حسن و محبت ہیں اے رحیم
دیوانے کر دئیے گئے اچھے بھلے بہت
محمد رؤف رحیم الدین
No comments:
Post a Comment