چلے گئے ہو سکون و قرار جاں لے کر
ہم اپنے درد کو جائیں کہاں کہاں لے کر
بہت دنوں میں ملا ہے پیامِ موسمِ گل
نسیمِ صبح چلی ہے کشاں کشاں لے کر
اب اپنے اپنے مقدر پہ بات ٹھہری ہے
اٹھا ہے ابرِ گہر بار بجلیاں لے کر
یہاں نہ میں ہوں نہ تو ہے نہ کوئی شہنائی
پہنچ گئی ہے تِری آرزو کہاں لے کر
نئے ہیں جسم کے تاروں پہ روح کے نغمے
اٹھے ہیں بزم سے اک کیف جاوداں لے کر
غم حیات نے فرصت نہ دی سنانے کی
چلے تھے ہم بھی محبت کی داستاں لے کر
حسن طاہر
No comments:
Post a Comment