Thursday 29 April 2021

اب رہ و رسم نہیں کوئی بھی دلداری کی

 اب رہ و رسم نہیں کوئی بھی دل داری کی

دل نے اک عمر یونہی رنج سہے خواری کی

پوچھنے آیا جہاں ہم سے میاں عشق ہے کیا

قیس کو ہم نے ہی مجنوں کی سند جاری کی

اب جو دیوانہ ہوں میں ایسا نہیں تھا پہلے

میں نے اک عمر محبت کی اداکاری کی

اس کے ہر حلقے میں اک خواب سجا رکھا ہے

ہم نے خود زیست کی زنجیر بہت بھاری کی

صندلیں جسم مہکتا ہی چلا جاتا ہے

آگ جیسی ہے لپٹ اس گلِ قندھاری کی

ایسا خاموش تھا جیسے کبھی دھڑکا ہی نہ ہو

کیسی بر وقت دل وحشی نے ہوشیاری کی

اس نے بخشا تھا ہمیں روز ازل گریہ و غم

ہم نے تا عمر سر عام عزاداری کی


فہیم شناس کاظمی

No comments:

Post a Comment