Thursday 29 April 2021

سمجھے وہی اس کو جو ہو دیوانہ کسی کا

سمجھے وہی اس کو، جو ہو دیوانہ کسی کا

اکبر! یہ غزل میری ہے، افسانہ کسی کا

دِکھلاتے ہیں بت جلوۂ مستانہ کسی کا 

یاں کعبۂ مقصود ہے بتخانہ کسی کا 

گر شیخ و برہمن سنیں افسانہ کسی کا

معبد نہ رہے کعبہ و بتخانہ کسی کا

اللہ نے دی ہے جو تمہیں چاند سی صورت

روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا

اس کوچہ سے ہے گبرو مسلماں کو عقیدت

کعبہ جو کسی کا ہے تو بتخانہ کسی کا 

اشک آنکھوں میں آ جائیں عوض نیند کے صاحب

ایسا بھی، کسی شب سنو افسانہ کسی کا

جان اپنی جو دی شمع کے شعلے سے لپٹ کر

سمجھا رُخِ روشن اسے پروانہ کسی کا 

شمعِ رُخِ روشن کا وہ جلوہ تو دکھائیں 

ہے حوصلہ بھی صورتِ پروانہ کسی کا 

کیا برق کی شوخی مِری آنکھوں میں سمائے

ہے پیشِ نظر جلوۂ مستانہ کسی کا

الفت مجھے اس سے ہے، اسے غیر سے ہے عشق

میں شیفتہ اس کا ہوں، وہ دیوانہ کسی کا

عشرت نہیں آتی جو مِرے دل میں، نہ  آئے

حسرت ہی سے آباد ہے ویرانہ کسی کا

حیراں ہوں اسے تابِ جمال آئے گی کیونکر

بیخود ہے جو دل، سن ہی کے افسانہ کسی کا

پہنچی جو جو نِگہ عالمِ مستی میں فلک پر

ہم سمجھے مہ نَو کو بھی، پیمانہ کسی کا

کرنے نہیں دیتے جو بیاں حالتِ دل کو 

سنیے گا لبِ گور سے افسانہ کسی کا 

سامانِ تکلف نظر آئیں گے جو ہر سُو

جنت میں بھی یاد آئے گا کاشانہ کسی کا

نالاں ہے اگر وہ تو، یہ ہے چاک گریباں

بلبل کی طرح گُل بھی ہے دیوانہ کسی کا

چشم و دلِ عاشق کا نہ کچھ پوچھیے احوال   

وہ محو کسی کی ہے، یہ دیوانہ کسی کا 

تاثیر جو کی صحبتِ عارض نہ دمِ خواب

خجلت دِہ آئینہ ہوا شانہ کسی کا 

کوئی تو ہوا روح کا ساتھی دمِ آخر

کام آیا نہ اس وقت میں یارانہ کسی کا 

کچھ دور نہیں ساقئ کوثر کے کرم سے 

بھر دے مئے وحدت سے جو پیمانہ کسی کا 

رکھتا ہے قدم کُوچۂ گیسو میں جو بے خوف

کیا تُو دلِ صد چاک ہے، اے شانہ کسی کا 

تاثیرِ محبت سے جو ہو جاتے ہیں بے چین

رو دیتے ہیں اب سن کے وہ افسانہ کسی کا 

احباب نے پوچھا جو مِرا حال، تو بولے

سنتے ہیں وہ ان روزوں ہے دیوانہ کسی کا

دیکھا ہے عجب رنگ کچھ اس دورِ فلک میں 

کوئی نہیں اے ساقئ میخانہ کسی کا 

یاں شیشۂ دل خونِ تمنا سے ہے لبریز

واں بادۂ گُلفام سے پیمانہ کسی کا

سب مست مئے شوق ہیں ان آنکھوں سے اے دل

اس دور میں خالی نہیں پیمانہ کسی کا 

بخشی ہے جبِیں سائی کی در پر جو اجازت

واجب ہے مجھے، سجدۂ شکرانہ  کسی کا 

اے حضرتِ ناصح! نہ سنے گا یہ تمہاری

میرا دلِ وحشی تو ہے دیوانہ کسی کا

کرتے وہ نگاہوں سے اگر بادہ فروشی

ہوتا نہ گزر جانبِ میخانہ کسی کا 

حسرت ہی رہی زلفوں کے نظارے کی مجھ کو

یہ پنجۂ مژگاں نہ بنا، شانہ کسی کا

کس طرح ہوا مائلِ گیسو نہیں معلوم

پابند نہ تھا، یہ دلِ دیوانہ کسی کا 

ہم جان سے بیزار رہا کرتے ہیں اکبر

جب سے، دلِ بیتاب ہے دیوانہ کسی کا


اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment